مرزا بختیار بیگ‘ مظفرگڑھ
ایک مرتبہ بازار سے گزرتے ہوئے ایک بوڑھے اور کمزور آدمی کو دیکھا کہ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے چل رہا ہے مجھے شرارت سوجھی اسے کندھا مارا وہ غریب اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور نیچے گرپڑا اور باوجود لاکھ کوشش کے اٹھ نہ سکا جس پر میں خوشی سے قہقہہ مار کر ہنس پڑا
کئی سال پہلے کی بات ہے کہ اپنے چھوٹے بھائی مرحوم جاوید صاحب جس کے دل کےدو وال بند ہونے پر اس کے آپریشن کے سلسلے میں کارڈیوہسپتال کراچی میں تھا۔ ایک روز میں کچھ سامان لے کر وارڈ کی طرف جارہا تھا کہ مجھے ایک بچے نے روک کر اس خواہش اظہار کیا کہ میں اس کے والد جو کہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہیں ان کے پاس چل کر ان کی صحت کیلئے دعا کروں۔ ہسپتال ایک ایسی جگہ ہے جہاں سب کی تکلیف اور پریشانی ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ اس مشترکہ جذبہ کے تحت انسانی ہمدردی میں اس بچے کے ہمراہ ہولیا اور جب اس کے والد صاحب کے بیڈ کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ ایک باریش دراز قد بزرگ آنکھیں موندے لیٹے ہوئے ہیں بچے نے انہیں نہایت ادب سے سلام کرکے میرے بارے میں بتلایا کہ انہیں آپ کی صحت کی دعا کروانے کیلئے تکلیف دی ہے۔ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اٹھ کر بیٹھ گئے میں الامرفوق الادب کے تحت اپنے اللہ سے مانگنا شروع کیا اور وہ باپ بیٹا انتہائی عقیدت سے آمین کہتے رہے۔ دعا ہوچکی تو ان بزرگ نے نہایت پیار سے مجھ سے دریافت فرمایا کہ مولانا ہسپتال میں کیسے آنا ہوا؟ میں نےعرض کی کہ میں اپنے سب سے چھوٹے بھائی کے دل کے بند وال کےآپریشن کے سلسلے میں ملتان سے گزشتہ کئی روز سے یہاں ہوں انہوں نے ہمیں اپنی دعاؤں سے نہ صرف نوازا بلکہ ہر قسم کے تعاون کی بھی پیشکش فرمائی جس پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور عرض کی کہ اگر ضرورت پڑی تو ضرور انہیں تکلیف دوں گا۔
میرے غرور و تکبر کی کہانی:ان کا بیٹا کولڈڈرنک لے آیا جسے میں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا اس دوران انہوں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ مولانا جو میرا آپ ظاہری وضع قطع دیکھ رہے ہیں وہ میرے رب کے انتہائی کرم کا نتیجہ ہے ورنہ میرا ماضی انتہائی گندا رہا ہے میرا قدوقامت توآپ کے سامنے ہے ہی۔ اس کے ساتھ ساتھ کھلم کھلا بدمعاشی نے میری شہرمیں دھاک بٹھائی ہوئی تھی۔ لوگ میرے قریب سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے اور میں اس رعب اور دبدبے پر خوش ہوا کرتا‘ ایک مرتبہ بازار سے گزرتے ہوئے ایک بوڑھے اور کمزور آدمی کو دیکھا کہ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے چل رہا ہے مجھے شرارت سوجھی اسے کندھا مارا وہ غریب اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور نیچے گرپڑا اور باوجود لاکھ کوشش کے اٹھ نہ سکا جس پر میں خوشی سے قہقہہ مار کر ہنس پڑا اس کی بے بسی یا اس کی چوٹ لگنے کا مجھے ذرا بھر ملال نہ تھا۔ بابے نے مجھے ہنستے دیکھا تو بے بسی کے عالم میں اس نے آسمان کی طرف فریادی انداز میں جو نگاہ کی تو میں بڑے فخریہ انداز میں کوئی پرواہ کیے بغیر چل پڑا میرے جانے کےبعد لوگوں نے اسے اٹھایا۔
بزرگ کے ساتھ شرارت کی سزا:ادھر میں جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو مجھے ہارٹ اٹیک ہوا اور ساتھ ہی فالج کا جھٹکا بھی۔ میںبھی اس بابے کی طرح صحن میں گرپڑا مجھے بچوں نے بھاگ کر اٹھایا اور بستر پر لٹادیا۔ جلدی سے ڈاکٹر بلوایا گیا جس نے چیک کرتے ہی فوری طور پر کارڈیو ہسپتال لے جانے کو کہا۔ کارڈیو والوں نے میرا علاج شروع کیا اور ساتھ ہی دعاؤں کی ہدایت کی۔ اگلے روز مجھے وارڈ میں شفٹ کردیا گیا۔ میں بیڈ پر لیٹا ہوا تھا کہ مجھے محسوس ہوا میرا نچلا دھڑ بیڈ سے سرک رہا ہے اور اگر مجھے نہ تھاما گیا تو فرش پر گرنا یقینی ہے۔ سامنے نرسنگ کاؤنٹر پر سٹاف بیٹھا ہوا تھا اور مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں زور سے چلانا چاہتا تھا مگر میری آواز نہیں نکل رہی جب کہ مسلسل نیچے کی طرف جارہا ہوں اب اپنی اس بے بسی کو دیکھتے ہوئے بابا یاد آگیا جو گر کے اٹھنا چاہتا تھا مگر اٹھنے سے قاصر تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے اپنی غلطی کا شدت سے احساس �
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں